کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگا
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگا
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگا
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگا
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا:”پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا:”پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا:”پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔
کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا:”پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا:”بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے“۔پس ثابت ہو گیا کہ دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا:”بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے“۔پس ثابت ہو گیا کہ دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا:”بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے“۔پس ثابت ہو گیا کہ دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا:”بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے“۔پس ثابت ہو گیا کہ دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا:”میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے“۔کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔گھبراوٴ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔
کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا:”میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے“۔کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔گھبراوٴ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔
کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا:”میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے“۔کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔گھبراوٴ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔
کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا:”میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے“۔کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔گھبراوٴ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا:”باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا:”باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا:”باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا:”باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔فکر کرنے کی کوئی بات نہیں“۔اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا:”بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے“۔پس ثابت ہو گیا کہ دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا:”بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے“۔پس ثابت ہو گیا کہ دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
سفید کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا:”بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے“۔پس ثابت ہو گیا کہ دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔اپنا کام خود کرنا چاہیے۔
باغ کا مالک اپنے بیٹا کے ساتھ باغ میں ایا 3D animation cartoonaan
باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں ایا 3D animation cartoonaa
باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں ایا 3D animation cartoon
باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں ایا
ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا:”میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ہر بار وعدہ کر کے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔اب میں نے فیصلہ کیا
کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔گھبراوٴ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔
کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔گھبراوٴ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔
اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا:”میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ہر بار وعدہ کر کے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا“۔3D animation cartoon